اگرچہ رات گذری ہے تو پھر یہ رات سی کیا ہے |
سحر تیری جبیں پر نقش داغِ تیرگی کیا ہے |
جلا ڈالیں نہ اپنا گھر تو اے آتش کریں کیا ہم |
ہماری ظلمتوں میں اور وجہِ روشنی کیا ہے |
اُسے کہتے تو ہیں شبنم گلستاں میں سبھی لیکن |
یہ گُل ہی جانتا ہے اُس کے داماں کی نمی کیا ہے |
بجھی نا پیاس حالانکہ پلایا تھا لہو تجھ کو |
دلِ مضطر بتا مجھ کو کہ تیری تشنگی کیا ہے |
کہ گذریں گے یہ دن مشکل یہی اک آس ہے تم سے |
وگرنہ زندگی مجھ کو ملالِ خودکشی کیا ہے |
سہارے کی ضرورت ہر گھڑی محسوس ہوتی ہے |
سواۓ آدمی کے اِس جہاں میں آدمی کیا ہے |
بدل پائی نہ انساں کی اگر حالت تو اے شاعر |
یہ سب لوح و قلم تیرے یہ تیری شاعری کیا ہے |
اُسے دیکھا نہیں میں نے عمل پیرا کبھی واعظ |
جسے دیکھا ہے بتلاتے کہ نیکی کیا بدی کیا ہے |
ہے اب آئینہ بھی منکر ترے اس چہرے کا غازی |
کہ صورت کیا تھی پہلے اور اب صورت بنی کیا ہے |
عرفان غازی |
معلومات