نور و ظلمت کی یہ تفریق مٹا دی جائے |
جو نہ ڈوبے اسی سورج کو صدا دی جائے |
کس کی خاطر لبِ سوزاں سے صدا دی جائے |
کس لئے ہاتھ اٹھیں کس کو دعا دی جائے |
آئینہ بن کے سرِ شہرِِ فقیہاں آیا |
میری تصویر زمانے کو دکھا دی جائے |
اک بگولوں کا سرِ شہر اٹھے گا طوفاں |
میرے دامن سے اگر گرد اڑا دی جائے |
اب بھی پانی کی طلب کی تو سرابوں سے حبیب |
اب تو یہ ریت کی دیوار گرادی جائے |
معلومات