مولائے کائناتؑ کا چہرہ ہے خوں میں تر
لوگو یتیموں کا یہ مسیحاؑ ہے خوں میں تر
کاری ہے زخم اِتنا کہ اٹھتا نہیں ہے سر
تھامے ہوئے ہیں سر کو تڑپتے زمین پر
آنکھوں میں خوں ہے بھر گیا آتا نہیں نظر
محراب میں بھی خون ہے بکھرا ادھر ادھر
دینِ خدا کا ہائے خلیفہ ہے خوں میں تر
مولائے کائناتؑ کا چہرہ ہے خوں میں تر
دریا کی طرح خون ہے سر سے رواں دواں
آئے علیؑ کے بیٹے بھی دوڑے ہوئے وہاں
دیکھا کہ خوں میں ڈوبے ہیں بابا ہماری جاں
سر پیٹ کے شھزادے یہ کرنے لگے بیاں
بابا ہمارا لوگوں کا مولا ہے خوں میں تر
مولائے کائناتؑ کا چہرہ ہے خوں میں تر
باباؑ کے سر کو زانو پہ رکھتے ہیں نورِ عینؑ
چہرے سے خون صاف بھی کرتے حسنؑ حسینؑ
حضرت کی آنکھیں بند ہیں ملتا نہیں ہے چین
تھمتا نہیں ہے خون بھی کرنے لگے یہ بین
پھٹتا کلیجہ دیکھ کہ بابا ہے خوں میں تر
مولائے کائناتؑ کا چہرہ ہے خوں میں تر
گھر لے چلے علیؑ کو جو فرزندے مصطفیؑ
جبریلؑ چلا ساتھ میں دیتے ہوئے صدا
مارا علیؑ کو ظلم نے بے جرم و بے خطا
اہلِ فلک یہ پڑھتے ہیں رو رو کے مرثیہ
لوگوں سنو یہ وارثِؑ کعبہ ہے خوں میں تر
مولائے کائناتؑ کا چہرہ ہے خوں میں تر
زہرا کے نورِ عین جو لائے علی کو گھر
گریہ کناں سے گھر کے لرزتے تھے بام و در
عباس روتے باپ کے قدموں پہ رکھے سر
کہتی تھیں سر کو پیٹ کے یہ زینبِ مضطر
کوئی طبیب لاؤ کہ بابا ہے خوں میں تر
مولائے کائناتؑ کا چہرہ ہے خوں میں تر
آ کر طبیب کہتا ہے اب فائدہ نہیں
ایسا ہے زہر لوگو کہ اس کی دوا نہیں
وقتی علاج دودھ ہے اس کے سوا نہیں
بچوں نے کہا یعنی کے بچنے کی راہ نہیں
بچوں دعا کرو کہ دل ہوتا ہے خوں میں تر
مولائے کائناتؑ کا چہرہ ہے خوں میں تر
بیٹھی رہی سِرہانے ہی حیدر کی وہ دختر
کرتی تھی دعا بس یہ ہی زینب بہ چشمِ تر
بابا کو بچالے میرے اے خالقِ اکبر
تو مالکِ جہان ہے یہ وارثِ کوثر
زہرِ ستم سے بابا تڑپتا ہے خوں میں تر
مولائے کائناتؑ کا چہرہ ہے خوں میں تر
اکیسویں رمضان کو سرخی جو چھائی ہے
زہرا کے گھرانے پہ قیامت یہ آئی ہے
حیدر ہوئے شہید دہائی دہائی ہے
اہلِ حرم کے ساتھ تو روتی خدائی ہے
اہلِ عزا جنازہ یہ اٹھتا ہے خوں میں تر
مولائے کائناتؑ کا چہرہ ہے خوں میں تر
صائب صدا یہ چرخ سے آتی رہی پیہم
آل نبی پہ ٹوٹے قیامت کے جو ستم
ثانی نہیں ہے جس کا وہ سہتے رہے ہیں غم
بابا کی جدائی پہ بھی کرتے رہے ماتم
غم میں علی کے چرخ یہ ہوتا ہے خوں میں تر
مولائے کائناتؑ کا چہرہ ہے خوں میں تر

0
20