میں اپنا آپ ڈبو بیٹھا |
میں عاشق یار کا ہو بیٹھا |
میں ساری سُدھ بُدھ کھو بیٹھا |
میں آنسو آنسو رو بیٹھا |
مجھے آئی شرم گناہوں پر |
میں پھرتا رہا درگاہوں پر |
میں نے توبہ و استغفار کیے |
میں نے پیر فقیر ہزار کیے |
میں نے پھول چڑھائے قبروں پر |
میں نے دیے جلائے قبروں پر |
کیے ذکر اذکار، درود پڑھے |
کئی راتیں گزریں کھڑے کھڑے |
کی صوم و صلوٰة کی پابندی |
برسوں تک بن کے رہا بندی |
پیروں سے پھونکیں مروائیں |
ولیوں سے جھاڑیں کروائیں |
کئی مرشدوں کی خدمت کی |
کئی درویشوں کی دعوت کی |
کئی مشکل تسبیحات پڑھیں |
آیات زبانی یاد بھی کیں |
کی کوشش وجد میں آنے کی |
چِلّوں میں جان کھپانے کی |
میں رویا پیٹا سجدوں میں |
کئی لمحے گزرے صدیوں میں |
میں نے جادو ٹونے کروائے |
سب جنتر منتر پڑھوائے |
سب دیکھی چال ستاروں کی |
ٹوٹی اُمّید بہاروں کی |
مجھے دیا جواب طبیبوں نے |
سو جشن منائے رقیبوں نے |
رہا پھرتا میں بھی گلی گلی |
رہا کرتا میں بھی علیؓ علیؓ |
میں نے کالے چولے سِلوائے |
جوگی سے سانپ نِکلوائے |
کھنچوائے زائچے کئی کئی بار |
چھوڑا نہ میں نے کوئی دربار |
عقیق فیروزے ڈال لیے |
لاکھوں تعویذ سنبھال لیے |
دیگیں دیں درباروں پر |
کروائے عمل مُرداروں پر |
کئی فالیں میں نے کُھلوائیں |
کئی چادریں گنگا دُھلوائیں |
لیں لاکھ دعائیں ملنگوں کی |
کی بیعت ننگ مننگوں کی |
دیے جھاڑو قبرستانوں میں |
افیون بھری شریانوں میں |
پی لال شراب کلیسا کی |
کی پوجا پاٹ مسیحاؑ کی |
بد قسمت قسمت ہار گیا |
گرو نانک کے دربار گیا |
میں نے اوم کا پرچار کیا |
دروازہ بہشتی پار کیا |
کیا مسجد، مندر، مےخانے |
میں نے توڑ دیے سب پیمانے |
میں جانوں، یار مرا جانے |
ہیں باقی سارے بےگانے |
اک وہ واحد، اک میں تنہاؔ |
پھر کیا دنیا، پھر کیا عقبیٰ |
خاکسار و کم ترین |
محمد جنید حسان تنہاؔ |
معلومات