ساتھ تیرے جو میں سفر میں رہا
زندگی بھر میں اک پہر میں رہا
ہوش میں تو کبھی رہا ہی نہیں
جو رہا میں ترے سِحر میں رہا
جب ترے ساتھ آشنا بھی نہ تھا
پھر بھی تیرے ہی میں اثر میں رہا
ساتھ تیرا اگر رہا نہ مرے
میں ہمیشہ اسی ہی ڈر میں رہا
شہرتیں بھی تو ہیں عجب سی یہاں
میں تو گمنام پر خبر میں رہا
سارے اوقات تیرے نام کئے
شام میں تُو مری سحر میں رہا
میرے لفظوں پہ تیرا پہرہ رہا
زیر میں تو مری زبر میں رہا
تُو سمایا کہاں کہاں ہے یہاں
میری ترتیب اگر مگر میں رہا
میں تو اکثر ترے ہی پاس رہا
کون کہتا ہے اپنے گھر میں رہا
ہے ہمایوں ترا وجود کہاں
تُو جو سوچے کدھر کدھر میں رہا
ہمایوں

20