جلتے جو اپنی یاد کے، تونے مجھے دیے
چاہا بجھانا لاکھ نہیں بجھ سکے دیے
مقصد ہے کچھ تو خلق کا، اس نے اگر ہمیں
فہم و کتاب دے کے، دیے نور کے دیے
اکڑے انھیں ذرا نہ جلال و ہنر ملا
جو تیرے در پہ سر کو جھکا کر گئے دیے
کیا قہر ہے کہ روشنی ظلمت سے جا ملی
کیا ظلم ہے کہ جلتے دیوں سے جلے دیے
جہد و عمل ہے شرط اجالوں کے واسطے
روشن کہاں ہوئے ہیں کبھی آپ سے دیے
اب اسکی آنکھ میں بھی نہیں حسرتیں کوئی
ہم نے بھی سب بجھا دیے امید کے دیے
یہ کس کو ہو گئی ہے اجالوں سے دشمنی
ہے کون جو بجھائے چلے جائے ہے دیے
تجھ سے، اے تند و تیز ہوا، بجھ سکیں گے کیا
روشن جو میرے خونِ جگر سے ہوئے دیے
ہے چیز ایک، پھر بھی کئی نقطہ نظر
دیوا، چراغ، دیپ تو کوئی کہے دیے
شیشے میں آیا بال، نہ جائیں کبھی نشاں
زخموں کے جو، زبان کی تلوار نے دیے
یہ کیا کہ روشنی ہو مگر رونقیں نہ ہوں
یہ کیا کہ مل سکیں نہ گلوں سے گلے دیے
پوچھو کوئی جواب نہ کوئی سوال ہی
رہتے ہیں آپ کس لئے اتنے لیے دیے
سیماب پا سیاہیِ شب کیوں نہ ہو حبیب
لو دے اٹھیں تمام ہی چھوٹے بڑے دیے

0
42