آشناؤں سے جان چھوٹی ہے
بے وفاؤں سے جان چھوٹی ہے
ایک چھوٹی سی بس خطا کر کے
پارساؤں سے جان چھوٹی ہے
ہو گیا گھرسے در بدر لیکن
تیرے گاؤں سے جان چھوٹی ہے
اک محبت کا بس گناہ کر کے
اور گناوں سے جان چھوٹی ہے
بے وفا نام جو دیا مجھ کو
اب وفاؤں سے جان چھوٹی ہے
جب سے کی دوستی رقیبوں سے
خیرخواؤں سے جان چھوٹی ہے
تیری صحبت سے دوری جو ہوئی
سو بلاؤں سے جان چھوٹی ہے
اچھا ہے کاٹ جو زباں ڈالی
میری آہوں سے جان چھوٹی ہے
یہ مرض لا علاج .....ہوا بہتر
اب دواؤں سے جان چھوٹی ہے
مرکے پہنچا خدا کے رو بہ رو
تب خداؤں سے جان چھوٹی ہے

0
95