تنہا راتوں کی بے کلی خوب جتائیں گے
شکنِ پلنگ کا سارا حساب دکھائیں گے
کیا اُفتاد پڑی مری جانِ نا تواں پر
کاندھے پر رکھ سَر، بخوشی وہ سنائیں گے
روئے سخن ہے جسکی طرف ہے وہ پُنبہ بگوش
کان لگائے ہے محفل، کس کو سنائیں گے؟
خاطرِ عاشقاں ہے بر جلوہِ یاراں کیا؟
برق زدہ بیچارے کہاں شِفا پائیں گے!
میرے رویے اُلجھے ہیں اسکی طبیعت میں
روٹھے کیسے ہی، بار ہا بار منائیں گے
باقی جہانِ ہست و بُو ہے روحِ رواں سے
جذبوں کو پہلو میں کیونکر دفنا پائیں گے
ثانِیے وصل کے گو محدود ہیں مؔہِر مگر
خوابِ پریشاں بن کے ہمیں وہ ستائیں گے

0
81