جامۂ عقل و خِرد کی نازبرداری کا عشق
تیسری دنیا کی بربادی پہ تیّاری کا عشق
تاخت و تاراج کر کے آدھی دنیا کا سکوں
اور کچھ مقصد نہیں ہے محض سرداری کا عشق
لُوٹ کر کمزور قوموں کا عروج و سلطنت
ان ضعیفوں کی ضعیف المال ناداری کا عشق
پھر بھی ان محکوم قوموں کا توکّل کفر پر
اس سے بڑھ کر اور کیا ہے ذِلّت و خواری کا عشق
لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل
مسلماں ملکوں کو دے کر آہ کا زاری کا عشق
چھوڑ کر قرآن کو سُنتّ رسول اللہ کو
کر دیا بیمار تجھ کو دے کے بیماری کا عشق
کر گئی ہے کام اس عیّار کی برگِ حشیش
نشّۂ عُزلت بھی کیا ہے ضربتِ کاری کا عشق
کر گیا بے بس مجھےامید عشقِ ناتواں
اس کو ہی دانا کہا کرتے تھے لاچاری کا عشق

0
107