روح زخمی جب ہوئی اس سے جدا رہنے لگے
پہلے اس سے تھے خفا سب سے خفا رہنے لگے
زندگی آہستہ آہستہ سمٹتی ہی گئی
رات دن پھر خود میں ہی ہم مبتلا رہنے لگے
جستجو آغاز میں تھی علم کی ہم کو بہت
بعد میں ہر چیز سے نا آشنا رہنے لگے
اک مکاں پر آ کے شوقِ زندگی جاتا رہا
کچھ نہ تھا جب زندگی میں پارسا رہنے لگے
پیٹ بھرنے کے لیے کاوش بہت درکار تھی
کوئی مقصد جب نہ تھا بن کے گدا رہنے لگے

0
12