دِید کو تیری سراپا آنکھ ہوئے ہیں
کیا چلے کندن تھے بننے، راکھ ہوئے ہیں
کرتے نُمائندگی ہم بے زُباں سب کی
نوکِ زُباں پر اُٹھائے ساکھ ہوئے ہیں
چھوڑتے کیوں ہم نہیں ہیں بے رُخی پر بھی؟
کوئی نہیں تم سا ہم سے لاکھ ہوئے ہیں
مِؔہر یہاں شب فِروزی کرتے ہو کیسے
زیرِ پا رستے بھی سنگلاخ ہوئے ہیں
-----------***----------

0
165