دامن جنونِ عشق میں یوں چاک ہو گئے
حاکم تمام وقت کے سفّاک ہو گئے
فرعونِ وقت ہی نہیں اُن کے لوازمات
فخر و غرور و کبر سبھی خاک ہو گئے
پنچھی وہ جال میں پھنسے دیکھے ہیں بارہا
سمجھے تھے جو کہ ہم بڑے چالاک ہو گئے
تم نے ہی شرم آنکھ میں رکھی نہیں ذرا
اب ہم سے کہہ رہے ہو کہ بے باک ہو گئے
حائل کئے تھے درمیاں دریا جو آگ کے
دیکھو سمندروں کے ہیں تیراک ہو گئے
جب سے گئے ہیں آپ کوئی پوچھتا نہیں
کہتے ہوئے یہ آپ ہی نمناک ہو گئے
اہلِ خرَد ہیں چپ اُنہیں ہیں عزّتیں عزیز
قصّے ہمارے شہر کے غم ناک ہو گئے
زلفِ شبِ فراق تھی طارق بہت دراز
تھے راستے میں ہر جگہ پیچاک ہو گئے

0
7