ہے شاعرانہ فطرت ہر سو ہو واہ واہ
تصدیق ہر طرف ہو خوب و جیاد کی
ہر شعر پر ہو داد و تحسین بے شمار
لاکھوں ہزاروں خواہش ہے مستزاد کی
اک پیر زادہ مجھ سے ہوتے ہیں ہم کلام
کرتے ہیں بات فتنۂ واہِ بباد کی
شاہؔی یہ خوۓ عہدِ طفلی نہیں گئی
اب تک ہے تجھ کو خواہش تحسین و داد کی
اسلوبِ شاعری تو عمدہ بہت ہے لیکن
رکھتے ہو دل میں خواہش نام و نہاد کی
اقبال کی طبیعت سے آشنا کیا
آگاہ خامیوں سے کیا نامراد کی
سوز و گدازِ رومی رازی کے پیچ و تاب
تفریح بھی کرایا سوزِ بلاد کی
اس دور کا میں اقبالؔ حضرت ہیں گویا رومیؔ
کیا خوب تربیت کی ہندی نژاد کی
ہو ناز کیوں نہ حسنِ تقدیر پر مجھے
نظرِ کرم ہوئی ہے اک پیر زاد کی
اے شاعرِ سیاست قسمت تری کھلے
قدرت تجھے ملے بست و کشاد کی

0
1
102
ہو ناز کیوں نہ حسنِ تقدیر پر مجھے
. نظرِ کرم ہوئی ہے اک پیر زاد کی

. پیــؔر زادہ اور شاعـــؔر

اس دور کا میں اقبالؔ حضرت ہیں گویا رومیؔ
کیا خـوب تربـیت کی ہنـدی نـژاد کی

بسااوقات انسان شوقیانہ( طور پر )خود کو نئے نئے القاب سے ملقب کرتا ہے مثلأ مجھے ہی لے لیجئے فارسی کے سال مجھے" سید عطا اللہ شاہ بخاری" سے زوروں کی عقیدت ہوگئی تھی جس کے سبب میں بھی خود کو" ابو اُمامـه شــؔاہ بخاری "کہنے لگا تھا کہ ان شاء الله العزیز میں بھی ان جیسا مقرر ، مبلغ اور امارت اسلامیہ کا امیر بنوں گا ، پھر کسی رفیق درس کے سجھانے سے کہ وہ تو" بخارا "کے تھے بخاری سمجھ میں آتا ہے مگر تم تو "ارریہ "کے ہو لہذا تم "شاہ ارریاوی " لکھو ، اور ایسا ہی ہوا چنانچہ آج بھی میں اسی نام سے زندہ ہوں

اک زمانہ تھا کہ میں جب بھی کوئی ٹوٹی پھوٹی تحریر لکھتا تھا تو نیک فالی کے طور پر اپنے نام کے شروع میں" ابن خطاب" لکھا کرتا تھا ( ابن خطاب ابو اُمامـه شــؔاہ ارریاوی) یہ حضرت عمر فاروقؓ سے والہانہ عقیدت و محبت کے سبب کہ خدا مجھے بھی ان جیسا عظیم حکمران بناۓ تاکہ میں بھی پوری دنیا میں اسلام کا بول بالا کروں گرچہ اب میں" ابن خطاب" نہیں لکھتا ہوں ، تاہم اب بھی میرے دل میں ان سے اتنی ہی عقیدت موجود ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ

اسی طرح میری حالیہ حالت یہ ہے کہ میں خود کو کبھی" اقبالِ ثانی" کبھی" پرتوِ اقبال" کبھی" عکسِ اقبال" کہا کرتا ہوں
(جبکہ بعض مخلص رفقاء درس بھی کہا کرتے ہیں اور اللہ ان کی زبان مبارک فرمائے آمین ) تو ہرگز ہرگز اس کا مطلب غرور و تکبر نہیں کہ مبادا " شاہیؔ" مغرور ہوگیا یہ تو انسانی فطرت ہے کہ وہ جس سے محبت کرتا ہے خود کو اسی کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے کہ کہیں وہ بھی ان جیسا بن جائے

مذکورہ نظم میں بھی میں نے خود کو "اقبالؒ "سے تشبیہ دی ہے جبکہ حضرتِ ناصح کو" رومیؒ" سے اس لیے اس میں چیں بجبیں ہونے کی چنداں حاجت نہیں ہے۔ (دعاؤں کا طالب خاکسار شاہؔی)

. پیــؔر زادہ اور شاعـــؔر

0