شمعِ دل اُنکی، محفل میں ہے
جیسے جاں نیم، بسمل میں ہے
غُل مچاتا ہے جیسے سکوت
اب تلک غصّہ بادل میں ہے
سُنتے ہیں سوچتا ہے ہمیں
سُنتے ہیں یار مُشکل میں ہے
پھیرنا شرم، سے پلکوں کا
ناوکِ مِژگاں، وہ دل میں ہے
ظُلمتِ یاس، اتنی نہیں
تیرگی جتنی، کاکُل میں ہے
عشق ہے آگ، سے کھیلنا
مِؔہر لو آج، مَقتل میں ہے!

0
90