| حد سے بڑھکر جو عقیدت کی ہے |
| جان من سے جو محبت کی ہے |
| چرچہ بھی پیار کا پھیلا ہر سُو |
| اس قدر آپ سے الفت کی ہے |
| سب نچھاور ہے اگر ہاں کر دے |
| صدق دل سے ہی جو چاہت کی ہے |
| روڑہ کچھ درمیاں حائل نا ہو |
| جب کہ اظہار رفاقت کی ہے |
| کون کیسے، کہاں، کس کو پائیں |
| بات تو ساری یہ قسمت کی ہے |
| ساز چھڑتا ہی لبوں پر جائے |
| پھر تو محفل ہی سماعت کی ہے |
| ہجر کو کیسے بھی ناصؔر بھولیں |
| یاد اب تک بچی فرقت کی ہے |
معلومات