جدھر زمانہ گیا اس طرف نہ جانا تھا
یہ فیصلہ تھا مرا اور بہت پرانا تھا
میں اک ہجوم میں تھا پھر بھی میں اکیلا تھا
مجھے خبر تھی فقط میں ہی اک نشانا تھا
گنوایا وقت کہ جیسے میں دائمی ہوں یہاں
خبر نہ تھی کہ یہاں سے مجھے بھی جانا تھا
کرا کہ سجدہ پھر انسان کو فرشتوں سے
زمیں پہ پھینک کر انسان کو رلانا تھا
دیا یہ سر کے اٹھا کر میں چل سکوں اس کو
مگر یہ راز کھلا اب کہ یہ جھکانہ تھا
مرا شمار اب یاں جاہلوں میں ہوتا ہے
دیا جلا کہ پھر آخر یہاں بجھانا تھا
ق
بغیر اس کے ادھورا ہوں یہ بتایا گیا
وہ ایسی آگ تھی جس نے مجھے جلانا تھا
وہ اک ادھوری ملاقات آخری ٹھہری
رکا نہیں کہ بہت دور اس کو جانا تھا

0
74