کل اس سے ہو گئی جو ملاقات خواب میں
پھر وہ نشہ ہوا کہ نہ ہو گا شراب میں
جوبن وہ اس کےحسن و نزاکت کا کیا کہیں
دیکھا تھا ہم نے جب اسے عہدِ شباب میں
کاغذ قلم دوات ہمارے سفیر ہیں
لکھ بھیجیں گے جو کہہ نہ سکے ہم حجاب میں
پڑھتے رہے ہیں یوں تو کتابیں کئی مگر
لکھّا ہوا ہے خاص کچھ اُس کی کتاب میں
مضمون کھول کر جو کریں گے اسے بیاں
کہہ دیں گے دل میں آئے گا جو اضطراب میں
ہو اس طرف بھی ایک نِگاہِ کرم کبھی
سمجھیں گے لوگ ورنہ ہیں تیرے عتاب میں
واعظ کو شرم آتی نہیں ہم سے کچھ کہے
وہ جانتا ہے ہم جو کہیں گے جواب میں
منبر پہ چڑھ کے رات کو جو بولتا رہا
مے پی کے وہ گیا تھا ہمارے حساب میں
طارق یہ داستان تو رہنے ہی دو ابھی
قصّے ہیں گو بہت سے ابھی اُس کے باب میں

1
95
بہت شکریہ! ناصر ابراہیم صاحب! نوازش!

0