لہجے میں کھنک ہے نہ مری لَے میں تب و تاب
ہر تار پریشان ہے بیکار ہے مضراب
اک عرصہ ہؤا بانجھ ہوئی مادرِ مسلم
کیسے کوئی پیدا ہو کہ وہ کوکھ ہے نایاب
جس کوکھ نے اجسام کئے خالد و طارق
جس رحم نے تخلیق کئے قاسمِ نایاب
مَیں بھی ہوں اسی بھیڑ کا اک عُضوِ معطّل
گُم جس میں ہؤا کرتے ہیں سب خاور و ماہتاب
بھنبھوڑ رہے ہیں ترے صدّیق کی دختر
بِکتی ہے سرِ عام صحابہ کی تب و تاب
ہے مجھ کو یقیں عافیہ آئی ہے یقیناً
ہر دل ہے لہو رنگ تو ہر آنکھ ہے خوں ناب
وہ دیکھ تری بہن ترے در پہ کھڑی ہے
ڈھونڈو تو کہاں مر گئے سب منبر و محراب
دیکھو تو ذرا کون ہے دروازے سے لپٹا
یا دُخترِ صِدّیق ہے یا بِنّتِ خطّاب
فریاد ہے فریاد ہے فریاد الہٰی
کیا تجھ کو گوارا ہے مسلماں کی تباہی
(ایک تقریب میں پڑھی گئی)

0
9