تیری الفت میں ورے سود و زیاں سے جاؤں |
دعوئ عشق میں یا ، اپنے بیاں سے جاؤں |
خون آشام فضا ، رقص میں وحشی پاگل |
راستہ ہو گیا دشوار کہاں سے جاؤں |
غیر سے کیا کریں شکوہ جو بنا دے مسجد |
جب وطن جاؤں میں اپنے تو اذاں سے جاؤں |
نشّہ طاقت کا جو مخمور کئے رکھتا ہے |
میں تو مسجد بھی اگر جاؤں تو جاں سے جاؤں |
میرے اندازِ تکلّم پہ تو قدغن نہ لگا |
دل ہے ، پتھر تو نہیں ، طرزِ فغاں سے جاؤں |
دور رکھتی ہے تجھے حق سے فقط بد ظنّی |
سوچ ! کر لوں جو یقیں ، وہم و گماں سے جاؤں |
بد زبانی سے وہ جذبات مرے بھڑکائے |
چاہتا ہو گا کہ میں حسنِ بیاں سے جاؤں |
گھر میں چور آنے کا دھڑکا تو لگا رہتا ہے |
در کھلا چھوڑ کے اپنا جو مکاں سے جاؤں |
کون ہے تیرے سوا ، میرا سہارا مولیٰ |
میں کہاں جاؤں اگر تیری اماں سے جاؤں |
کوئی چارہ نہیں طارق جو محبّت کے سوا |
دل میں ہو ایک خدا ، عشقِ بتاں سے جاؤں |
معلومات