تپ کے انگار پہ ذرہ بھی چمک جاتا ہے |
پھر بھی انسان تو محنت سے جھجک جاتا ہے |
ہم نے کانٹوں کو مہکتے ہوئے دیکھا یاروں |
پھول تو پھول ہے اگتے ہی مہک جاتا ہے |
سوچتا ہوں کہ دیا ایسا تلاشوں جس کے |
سامنے آ تے ہی طوفان ٹھٹک جاتا ہے |
جو کبھی شہر کے مضبوط درختوں میں تھا |
آج ہلکی سی ہوا میں بھی لچک جاتا ہے |
اب تری بات میں وہ بات کہاں ہے واعظ |
جس کو سنتے ہی رکا دل بھی دھڑک جاتا ہے |
مغربی دور میں عزت کی طلب ہے لیکن |
آپ کےسر سے ڈُپَٹّا بھی سرک جاتا ہے |
کوئی غمخوار نہیں رب کے سوا طیب کا |
جس پہ تکیہ ہو مصیبت میں بدک جاتا ہے |
معلومات