دل سے توحید کے اقرار کی خوشبو آئی |
ہر بتِ شرک سے انکار کی خوشبو آئی |
آ گئے لوگ جو سننے کو تجھے ویسے ہی |
گفتگو سے انہیں افکار کی خوشبو آئی |
منہ کی باتوں سے تو قائل نہیں ہوتا کوئی |
لوگ مانیں گے جو کردار سے خوشبو آئی |
تیرے اعمال کو بدلے تو کوئی بات بنے |
تجھ سے گو علم کے انوار کی خوشبو آئی |
کب کہاں روک سکے پاؤں ، چلے آئے ہم |
جب کہیں بھی گل و گلزار کی خوشبو آئی |
اپنی پہچان کرا دیتا ہے وہ پل بھر میں |
جس کے اخلاق سے اِقدار کی خوشبو آئی |
لوگ آئیں گے ترے پاس اسی وقت اگر |
ان کو سلجھے ہوئے اطوار کی خوشبو آئی |
جو قریب آیا ، چلا آیا اسی گلشن میں |
اس کو جیسے یہاں ، ازہار کی خوشبو آئی |
معلومات