تب کوچہِ جاناں کو ہمیں جانا اچھا لگا
خوشیوں سے وہاں پھولے نہ سمانا اچھا لگا
جب کوچہِ جاناں کو چلے دھڑکن ہو گئی تیز
پھر زور سے دل کا شور مچانا اچھا لگا
ہر شخص سے پوچھا باقی سفر کتنا ہے ابھی
دیوار کا ہم سے باتیں بھی کرنا اچھا لگا
اس دن کیا فرطِ شوق میں ان کے گھر کا طواف
گلیوں میں ہمیں جاناں کی تو پھرنا اچھا لگا
وہ راہیں کہ جن پہ پڑتے تھے ہردن ان کے قدم
ان راہوں پہ اس دن ہم کو بھی چلنا اچھا لگا
ان کو نہ بلایا تھا کہ ذرا پردہ ہی رہے
واپس انہیں کی دہلیز سے آنا اچھا لگا
دیوانگی پر مجنوں سی کہا اعجازؔ سے یہ
آنا تِرا پھر یوں لوٹ کے جانا اچھا لگا

0
83