لولاک امرِ کبریا سے تیرے ہیں دونوں سریٰ
آفاق کا بھی بُلبلہ، قطرہ ہے تیرے بحر کا
یہ جملہ ہستی کا حسن ہے پَرتو تیرے روپ سے
نورِ جمالِ دو جہاں اے زینتِ ارض و سما
خلقِ خدا ممنون ہے سرکار تیرے فیض کی
دارین کے اے دلربا چرچا ہے تیرے دان کا
سارا دہر ہی نکتہ ہے تیرے محیطِ پاک میں
اے راز دارِ کنتُ کنزاََ اے حبیبِ کبریا
گونجیں ہیں تیرے نام کی آفاق میں ڈنکا عُلیٰ
مولا نے تیری شان میں کوثر کو تیرا کر دیا
اوجِ فلک کی رفعتیں تیرے قدم کو بوسہ دیں
اس لا مکاں کے زینے سے نوری ہے پیچھے رہ گیا
سمٹیں ہیں تیرے واسطے کونین کی بھی وسعتیں
تیرے لئے قصرِ دنیٰ روشن کرے تیرا خدا
خیران خردِ دہر ہے چلتا زماں جو تھم گیا
کیسے بریں سے جانِ جاں پل بھر میں واپس آ گیا
محمود جب ہیں طور پر بے خود کلیمِ حق ہوئے
یہ جان کیسے جانے پھر رتبہ خدائی نور کا

40