جو پہیلی خود سے جڑی تھی، پر اسے بوجھتا کوئی اور ہے |
مرے بولنے کی تھی باری، پر وہاں بولتا کوئی اور ہے |
کبھی چاہیں وہ بے خیالی میں بھی تو ہوں بے سود ہی چاہتیں |
"میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے" |
سبھی مرحلوں پہ ہمیں قدم تھے بڑھانے پھونکتے ہی مگر |
ہمیں چوکسی تھی برتنی پر، یہاں چونکتا کوئی اور ہے |
کلی پھول مہکے جو شاخ پر، ہو سماں چمن میں بھی خوشنما |
یہ فریضہ باغباں کا تھا پر اسے دیکھتا کوئی اور ہے |
نہ زیادہ سر کشی ہو نہ سادگی ناصؔر اپنے نفوس میں |
کرے خود سری جو ہمیشہ ہی، انہیں روکتا کوئی اور ہے |
معلومات