قلب مضطر سے جو ارمان نکل آتے ہیں
زیست میں ویسے ہی فرحان نکل آتے ہیں
ابتلا میں تو نہ کمیاں رہیں تھیں کچھ لیکن
"ملک غم سے نئے فرمان نکل آتے ہیں"
بخت برگشتہ میں بیدار دلی پیدا ہو
ضوفشاں شمع شبستان نکل آتے ہیں
مال و زر ہے تو خوشامدکے قصیدے پائیں
پاس ہو بےزری، اوسان نکل آتے ہیں
کفر ہے فعل جو مایوسی پہ رہتے مبنی
آس ہو زندہ تو امکان نکل آتے ہیں
نفس کو بوجھ اٹھانے کی اگر عادت ہو
اپنی بردباری کے اعلان نکل آتے ہیں
جزبے ہمدردی سے لبریز ہوں ناصؔر سب کے
دوڑتے بھاگتے انسان نکل آتے ہیں

0
61