اک جفا کار کو دلدار سمجھ بیٹھے تھے
دشمنِ جاں تھا جسے یار سمجھ بیٹھے تھے
جس ستمگر نے مجھے اپنا نہیں سمجھا تھا
اس کو میرا سبھی اغیار سمجھ بیٹھے تھے
ہجر کی رات کٹی چاند کو تکتے تکتے
چاند کو یار کا رخسار سمجھ بیٹھے تھے
مدتوں بعد کیا اس نے محبت کو قبول
ہم تو تاخیر کو انکار سمجھ بیٹھے تھے
وصل کی صبح تھے ہم عالم مدہوشی میں
دنیا والے ہمیں مے خوار سمجھ بیٹھے تھے
پیر و ملا نے ترے گھر کو ہے مل کر لوٹا
جبہ دستار کو کردار سمجھ بیٹھے تھے
حشر کے روز تھا اعمال سے دفتر خالی
زیست کو درہم و دینار سمجھ بیٹھے تھے
اک قبیلے نے کیا تم تو خود کو
سب قبائل کا ہی سردار سمجھ بیٹھے تھے
آبلہ پائی ملی دشتِ محبت میں سحابؔ
راہِ پرخار کو گلزار سمجھ بیٹھے تھے
داد کیا ملتی انہیں بزمِ سخن میں اے سحابؔ
الجھے افکار کو اشعار سمجھ بیٹھے تھے

12