ہر ایک دل میں چھپی ہے کوئی صدا گہری،
وہی شعور ہے، جس سے ہوا فضا گہری۔
نظر کو دے جو بصیرت، وہی ہے نورِ حیات،
بنے تو دل کی یہ دنیا، سراپا راہِ طری۔
خود اپنے باطنِ گمگشتہ کو جو پہچانے،
تو جان لے کہ یہ ہستی نہیں فنا گہری۔
وہی شعور ہے انسان کی حقیقت کا،
جو وقت کو بھی بنا دے نیا، نیا گہری۔
یہ خاک زندہ ہے روحِ عمل کے جوش سے،
اگر یہ ٹھنڈی پڑی، تو ہوا خطا گہری۔
بلند کر کے نظر، سوچ کر عمل کر جا،
یہی پیام ہے انسان کی انتہا گہری۔
زندگی کی راہوں میں نہ ڈر، نہ جھک،
حوصلے سے بڑھتا جا، ہر راہ روشن گہری۔
علم اور فکر کا چراغ جلا،
ہر دل میں امید کی روشنی پیدا گہری۔
ندیمؔ، اپنے نفس کی صدا کو سن اک بار،
یہی صدا تری تقدیر کی دعا گہری۔

0
3