دوست بن کر وہ ملا آگ لگانے والا
اس سے اچھا تو وہ دشمن تھا بجھانے والا
کیسا بہروپ تھا باہر سے نیا دکھتا تھا
مگر اندر جو چھپا تھا وہ پرانے والا
وقت پتھر کو بدل دیتا ہے رفتہ رفتہ
ایک مدت میں نہ بدلا وہ ستانے والا
وقت نے کتنے بجھائے ہیں چراغِ حسرت
دیا اب آخری رہتا ہے بجھانے والا
شاہد اب بند کرو دل کا دریچہ تم بھی
اب نہ آئے گا تمہیں چھوڑ کے جانے والا

0
65