دب نہ سکی آہ میں گونج شہنائی کی
میری دہائی وجہ بن گئی رسوائی کی
اب کہ زمیں سخت ہے آسماں بھی دور ہے
ایسے میں اُمّید کم رہ گئی شُنوائی کی
قُفل سِوا کر دیا اُس نے قفَس پر مرے
بات میں نے جب کی صیّاد سے آزادی کی
پوچھتے ہیں زہر خند کیوں ہے لبِ دم بھی ہم
چاہ تھی رقصِ اجل دیکھنا ہرجائی کی
تھامے کہاں سینہِ چھلنی بُوِ عشق کو
کیسے بھلا بات چل نکلی شناسائی کی
سائے کو جانے دیا جب بخوشی نیم روز؟
صبر کی اس نے مرے حوصلہ افزائی کی
ساتھ ہے دُستورِ اُلفت پے شبِ ہجراں اب
مِل رہی تھی مجھ کو اُجرت یہ شکیبائی کی
چیختے احوالِ ماضی ہیں سنو مہِؔر تم
وجہ بنی آشنائی مری تنہائی کی
---------٭٭٭----------

0
54