فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
ابنِ ملجم ظلم نا کر مرتضی سجدے میں ہے۔
شکلِ حیدر میں چھپا یہ خود خدا سجدے میں ہے
تیغ سے تیری ہوا ہے خون یہ توحید کا
پیکرِ حیدر میں دیکھو لا الہ سجدے میں ہے۔
تم نے سمجھا ہی نہیں ہے خم کے اُس اعلان کو۔
نا چلا اے تیغ ظالم مصطفی سجدے میں ہے۔
جس کی چادد میں خدا ہے اس کا وارث ہے علی۔
نا چلا یوں تیغ اس پر وہ ردا سجدے میں ہے۔
سر کٹا جو باپ کا تو کیسے بیٹی یہ سہے
گھر میں زینت باپ کی کرتی دعا سجدے میں ہے۔
مسجدِ کوفہ میں آ کر جنتیں رونے لگیں۔
سامرہ بغداد قُم اور کربلا سجدے میں ہے۔
بام و در کیوں کانپتے ہیں کعبہ خوں روتا ہے کیوں۔
ہے مصلیٰ خون میں تر سیدہ سجدے میں ہے۔
ظلم کیوں کرتے ہو تم یہ سورہِ اخلاص پر۔
کشتیِ اسلام کا یہ نا خدا سجدے میں ہے
مسجدِ کوفہ جھکی ہے آج بھی سوئے نجف۔
جس جگہ ضربت لگی تھی وہ جگہ سجدے میں ہے۔
آنکھیں شفقت کی لگی ہیں تیری راہوں پر سخی
آؤ مولا لب پہ ہے اور سر مرا سجدے میں ہے۔

63