غم اس کا اپنی روح میں جَڑنا پڑا مجھے
اس کے معاملات میں پڑنا پڑا مجھے
مجھ کو لگا کہ اس کو خزاؤں سے پیار ہے
پھر یوں ہوا بہار میں جھڑنا پڑا مجھے
اس نے کہا کہ شعر تو بس ایلیا* کے ہیں
پھر جون* کی حسد میں اجڑنا پڑا مجھے
دامن میں آندھیاں وہ سمیٹے ہوئے تھا یوں
ملتے ہی اس سے جڑ سے اکھڑنا پڑا مجھے
اس کے بغیر زندگی ممکن نہ تھی مری
پھر کَس کے اس کا ہاتھ پکڑنا پڑا مجھے
جب مجھ کو یہ لگا کہ جدائی قریب ہے
اُس سے بھی پہلے خود سے بچھڑنا پڑا مجھے
شاہد مری لڑائی زمانے سے تھی مگر
پہلے پھر اپنے آپ سے لڑنا پڑا مجھے
(*نوجوان نسل کے ہردلعزیز شاعر جون ایلیا)

4
218
مطلع میں گڑنا صحیح نہیں لگتا یہاں گاڑنا درست ہوگا گرائمر کے لحاظ سے مگر قافیہ برقرار نہیں رہتا

اصلاح کا شکریہ - اگر وقت ملے تو میری باقی غزلوں کی بھی اصلاح کر دیں

0
ویسے یہ کس مطلع کا زکر ہے ؟ مجھے تو جو مطلع نظر آ رہا ہے اس میں گڑنا تو نہیں ہے

غم اس کا اپنی روح میں جَڑنا پڑا مجھے

0
اس سے پہلے تھا

0