غم اس کا اپنی روح میں جَڑنا پڑا مجھے |
اس کے معاملات میں پڑنا پڑا مجھے |
مجھ کو لگا کہ اس کو خزاؤں سے پیار ہے |
پھر یوں ہوا بہار میں جھڑنا پڑا مجھے |
اس نے کہا کہ شعر تو بس ایلیا* کے ہیں |
پھر جون* کی حسد میں اجڑنا پڑا مجھے |
دامن میں آندھیاں وہ سمیٹے ہوئے تھا یوں |
ملتے ہی اس سے جڑ سے اکھڑنا پڑا مجھے |
اس کے بغیر زندگی ممکن نہ تھی مری |
پھر کَس کے اس کا ہاتھ پکڑنا پڑا مجھے |
جب مجھ کو یہ لگا کہ جدائی قریب ہے |
اُس سے بھی پہلے خود سے بچھڑنا پڑا مجھے |
شاہد مری لڑائی زمانے سے تھی مگر |
پہلے پھر اپنے آپ سے لڑنا پڑا مجھے |
(*نوجوان نسل کے ہردلعزیز شاعر جون ایلیا) |
معلومات