کوئی منزل نہیں ہوتی میاں خانہ بدوشوں کی |
خدا کا نام لے کر ہم کنارے چھوڑ جاتے ہیں |
کسی نے ویسے آنا تو نہیں پیچھے ہمارے،دوست! |
چلو پھر بھی کہیں کچھ کچھ اشارے چھوڑ جاتے ہیں |
غموں کی فصلیں آتی ہیں یہاں بچوں کے حصّے میں |
یہاں پر لوگ ورثے میں خسارے چھوڑ جاتے ہیں |
کبھی جب تیرگی حد سے زیادہ بڑھنے لگتی ہے |
ہم اس آنکھوں کے صحرا میں ستارے چھوڑ جاتے ہیں |
تعجب کیا کہ یاں پرآکے ہم رستے سے ہٹ جائیں |
یہاں پر آکے دریا بھی کنارے چھوڑ جاتے ہیں |
کسی کی یاد ہے جو تب ہمارا ساتھ دیتی ہے |
کہ جس موقعے پہ دائمؔؔ سب سہارے چھوڑ جاتے ہیں |
معلومات