اے خدا، اے مرے محسن ، اے مرے پیارے سجن
تجھ سے ملنے کی تڑپ ، کیسی ہے یہ دل میں لگن
حسن و احسان ترا دیکھ کے واری جاؤں
تجھ پہ قربان ہوا جائے مرا تن من دھن
ذرّہ ذرّہ تری قدرت کا ہے شہکار بنا
دیں گواہی تری ، گردش میں جو اجرامِ کُہن
تجھ پہ شاہد ہیں فلک، چاند، ستارے ، سورج
تیری تخلیق زمیں ، دشت و چمن ، کوہ و دمن
آنکھ بینا ہو تو ہر سمت دکھائی تُو دے
شرک سے پاک نظر آتا ہے تیرا آنگن
میری خوراک کا ساماں ہے میسّر ان میں
بحر و بر ، دشت و جبل سارے ہیں گویا مخزن
کیا درختوں میں نہاں آگ نظر آئے کبھی ؟
جیسے نطفے میں ہی پوشیدہ رہے روحِ بدن
زندگی کی ہوئی بنیاد تو مٹّی ، پانی
خاک کا پتلا ہوا نور سے جگ مگ روشن
ایک نقطے سے کہیں زیست کا آغاز ہوا
نفسِ واحد سے کئے پیدا سبھی مرد و زن
مرد کے کاندھے پہ ڈالا ہے سنبھالے اس کو
اور تخلیق کا مرکز ہوا عورت کا بطن
پھول رنگینی سے ، خوشبو سے بلائے اس کو
بیج پھیلائے کوئی بھونرا یہ کرتے ہیں جتن
گھو متا پھرتا ہے اس میں جو ملا اس کو مدار
دائرہ جس کا ہے جتنا وہ اسی میں ہے مگن
جس کو فرصت ہو ذرا غور سے دیکھے اس کو
کیسے مل جاتا ہے چوپائے سے انساں کو لبن
جلوۂ حسن تو ہر سمت نظر آتا ہے
لحنِ داؤدی جہاں سے ہے وہیں کام و دہن
ان گنت تیرے ہیں احسان نہ ہو ان کا شمار
حمد ہو تیری بیاں کیسے ہے محدود سخن

0
21