جو لوگ دکھتے ہیں معصوم و صوفی باہر سے
چھچھورے ہوتے ہیں وہ لوگ اکثر اندر سے
خدا کا عرش بھی اس وقت کانپ اٹھتا ہے
نکال پھینکتا ہے بیٹا ماں کو جب گھر سے
تم اپنے آپ کو کچھ اسطرح بنا لو کے
حریف خود ہی جھکا ڈا لے سر ترے ڈر سے
جو ایک پیالہ ہی مل جاۓ تو غنیمت ہے
وگرنہ مجھ کو غرض بھی نہیں سمندر سے
جو میں نے گایا غزل کا انوکھا اک مصرع
تو دوستوں نے کہا پھر کہو مکرر سے
کوئی جو دیکھلے نوکر سمجھنے لگ جاۓ
کچھ ایسے پیش وہ آتی ہے اپنے شوہر سے
خدا کا شکر ہے شاعر بھی بن گئے یونسؔ
وگرنہ شاعری آتی ہے بس مقدر سے

0
32