کتنی ہے زندگی ہوئی دشوار کچھ کہو
عالم میں جنگ کے ہوئے آثار کچھ کہو
یوسف تو آگیا سرِ بازار کب سے ہے
“تم بھی اگر ہو اس کے خریدار کچھ کہو”
تم ظلم دیکھ کر بھی ہو خاموش کس طرح
کہتے ہو خود کو تم بھی تو خود دار کچھ کہو
آیا ہے اور بھی کوئی میدانِ جنگ میں؟
دشمن نے ہر طرف سے کی یلغار کچھ کہو
کانوں پہ جوں بھی رینگتی دیکھی نہیں کہیں
ہم سے ہی کہہ رہے ہیں کہ بے کار کچھ کہو
سچ بولنا صحافتی دنیا میں جُرم ہے
لکھنے لگے ہیں جھوٹ کے انبار کچھ کہو
سب بحر و بر فساد کی زد میں ہیں دِکھ رہے
اک ہم ہی تو نہیں ہیں گنہ گار کچھ کہو
ساری صدائیں کر چکا خاموش اب عدو
امّت کے ایک تم بچے غم خوار کچھ کہو
آنکھوں کے سامنے ہوا ہے ظلم اس قدر
دکھ کا ہوا ہے سرسری اظہار کچھ کہو
رنگین خون سے ہے فلسطیں کی سرزمیں
کیسے بنے گا یہ لہو گلزار کچھ کہو
امید مغفرت کی لئے آگئے ہیں ہم
آشاؤں کے محل نہ ہوں مسمار کچھ کہو
طارق زبانِ حال حقیقت بیاں کرے
ہر کام ہو گیا ہے پُر اسرار کچھ کہو

0
9