جو در و دیوار پر تھی روشنی، وہ بھی نہیں
اور جو دیوار تھی کچھ مدھ بھری، وہ بھی نہیں
چاک سب پردے ہوئے، چھت کی وفا باقی نہ تھی
سیڑھیاں تھیں جو کبھی نرم سی، وہ بھی نہیں
پائمالی کی صدا گونجی جہاں ہر سمت سے
آج اُس گلی میں وہ شور و ہنسی، وہ بھی نہیں
کھڑکیاں، در، آنگن و زینے، سبھی سہمے ہوئے
تازگی جو گونجتی تھی صبح سی، وہ بھی نہیں
چھت سے جو بادل اتر کر بات کرتے تھے کبھی
اُس فلک سے آتی کوئی چاندنی، وہ بھی نہیں
کون سا لمحہ تھا جو دل نے سنبھالا تھا کبھی
یاد کی تہہ میں چھپی جو روشنی، وہ بھی نہیں
خستگی کا زخم لے کر رہ گیا بس اک مکاں
دل کی دیواروں میں تھی جو چاشنی، وہ بھی نہیں
حیدرؔ اب وہ لمس، وہ خوشبو، وہ آوازیں گئیں
جس جگہ رہتی تھی کچھ جو تازگی، وہ بھی نہیں

5