| صحبت میں مربی کے وہ پایا بھی بہت ہے |
| اب رنگ نکھرنے سے وہ چھایا بھی بہت ہے |
| پروان چڑھیگی بالیاں تخم سے دھیرے |
| ِکشتِ زار میں دہقاں نے بویا بھی بہت ہے |
| موسم سے اٹھائے وہی ہے فائدہ ہر دم |
| جو لگتا ہو شوقین و رسیا بھی بہت ہے |
| تخریبی رویہ بھی مذمت کے ہے قابل |
| کچھ سوچ ہی پر ایسی یہ گھٹیا بھی بہت ہے |
| رسوائی ہونے سے بڑی خفت ملی اس کو |
| ناکامیابی پر پھوٹ کے رویا بھی بہت ہے |
| کس کس کو بتائیں بھی سبب مرض رہا کیا |
| حالات کی اس مار سے دکھیا بھی بہت ہے |
| الزام نہیں دینا ہے ناصؔر کسے ہرگز |
| اپنا ہی مگر سب یہاں کھویا بھی بہت ہے |
معلومات