فدا ان کے قدموں پہ ہستی ہے ساری
گری کفر کی جن سے شکتی ہے ساری
درود آئیں ان پر سدا کبریا کے
انہی سے یہ گردوں میں مستی ہے ساری
بڑا رتبہ ان کا ہے دونوں جہاں میں
سدا جن سے رحمت برستی ہے ساری
وہ نعلین سدرہ سے آگے گئے جو
یہ کونین ان کو ترستی ہے ساری
ملی آگہی مجھ کو لولاک کی یوں
بغیر ان کے فطرت تڑپتی ہے ساری
ملا ذرے ذرے کو ہے فیض ان کا
نبی کی ہے رحمت جو سستی ہے ساری
ہے محمود مولا انہیں دینے والا
گدا یہ خلق بھی انہی کی ہے ساری

42