شب ہجراں ہے میں تھوڑا ڈر گیا ہوں
زندہ تو ہوں پر تھوڑا مر گیا ہوں
اب سنتا تو ہے وہ دُعائیں میری
گہرائی میں تھوڑا اُتر گیا ہوں
وہ ہنس پڑا جب اس نے مجھ کو دیکھا
ن ام عاشقی میں تھوڑا کر گیا ہوں
میرے پیارے شوقِ دید ہی میں
میں میلا تھا تھوڑا سنور گیا ہوں
کچھ بھی نہیں مجھ کو تُو چاہیے گو
تھوڑا اِدھر تھوڑا ادھر گیا ہوں
مجھ کو جو بھی ملا عجب ہی ملا
چوٹیں کھا کر تھوڑا سدھر گیا ہوں
مظلوموں کی آہ و بکا کو سن کر
مر ناں سکا تھو ڑا بکھر گیا ہوں
اس سے تھا پیار انکار تو نہیں ہے
پر اب میں بھی تھوڑا مکر گیا ہوں
تیرے کرم سے پار اتر جا ئوں گا
صِر اط سے میں تھو ڑا گزر گیا ہوں

0
49