حقیقت ہو عیاں سچ کب کہاں باطل سے ملتا ہے
سبق اخلاق کا اقدار کے حامل سے ملتا ہے
مقدّر مہرباں ہو جب کبھی ایسا بھی ہو جائے
سفینہ بھول کر رستہ ہی جا ساحل سے ملتا ہے
نہیں ہے ظلمتِ شب چھوڑتی مجھ کو کبھی تنہا
جو چہرہ سامنے آئے مہِ کامِل سے ملتا ہے
حسینوں سے مجھے ملتے ہوئے کچھ ڈر تو لگتا ہے
کہ چہرہ چاند کا بھی خنجرِ قاتل سے ملتا ہے
عجب کرتے ہو کیوں صحبت میں اس کی بیٹھتا ہوں میں
وصالِ یار کا نسخہ اسی محفل سے ملتا ہے
تمنّا ہی نہ ہو گر منزلِ مقصود پانے کی
کہاں پیچھے سے آ کر کوئی جا محمل سے ملتا ہے
کڑا ہے عشق کا رستہ نہ سمجھے لاکھ سمجھا لو
سبق عاشق کو لیکن یہ دلِ بسمل سے ملتا ہے
بہت کرتے ہیں دعوٰی عشق میں جاں پیش کر دیں گے
مگر عاشق کوئی سچا بڑی مشکل سے ملتا ہے
نہ جانے کس بھروسے جا رپٹ لکھوائی تھانے میں
مگر انصاف تو حاکم کسی عادل سے ملتا ہے
یہ مانا ہم نے طارق اس سے ہوتی ہیں ملا قاتیں
مگر یہ بھی تو بتلاؤ تمہیں کس دل سے ملتا ہے

0
6