جان و مال اس کو ہمیں فکر تھی کیا دیتے ہوئے |
ہاتھ میں ہاتھ جو تھا قولِ وفا دیتے ہوئے |
برگ کتنے ہی مراحل سے گزر کر آخر |
مر کے ہوتے ہیں امر رنگِ حنا دیتے ہوئے |
وقت پر وہ بھی پہنچ جایا کرے پاس ترے |
دیر ہو جائے نہ گر تجھ کو صدا دیتے ہوئے |
وہ محمّد کے تھے اخلاق جنھیں دیکھا تھا |
اپنی بیٹی کے بٹھانے کو رِدا دیتے ہو ئے |
تُم کو بتلاؤں کہ وہ کیسے ملا تھا مجھ کو |
اس کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے پتہ دیتے ہوئے |
عصرِ بیمار کا اترا ہے معالج دیکھو |
ہم نے دیکھا ہے مسیحا کو دوا دیتے ہوئے |
ہر جگہ دل کے ہی بیمار نظر آتے ہیں |
وہ تو بیمار کو خوش ہو گا شفا دیتے ہوئے |
اس کی مخلوق سے ہمدردی رکھے گر کوئی |
پھر تو افسوس اسے ہو گا فنا دیتے ہوئے |
اُن امیروں کو جو کچھ خوفِ خدا رکھتے ہیں |
لطف لیں پاس فرشتے بھی جگہ دیتے ہوئے |
طارق آغازِ تعلّق میں تکلّف چھوڑا |
ہم دعا کرتے رہے اس کو دُعا دیتے ہوئے |
معلومات