ہئے ہئے زینب ہئے ہئے شام
ہئے ہئے زینب ہئے ہئے شام
بالوں سے منہ ہیں چھپاتی رہییں
عصمت کی ہئے ہئے یہ ملکہ
ہئے ہئے زینب ہئے ہئے شام
ہنستے رہے سارے درباری
ظالم نے باغی ہم کو کہا
ہئے ہئے زینب ہئے ہئے شام
سر سے ہئے چادر کو میری
بارہ ہے دفعہ چھینا بھی گیا
ہئے ہئے زینب ہئے ہئے شام
بارہ ہیں گلے اور ایک رسن
اُس میں ہے سکینہ کا بھی گلہ
ہئے ہئے زینب ہئے ہئے شام
دروں سے ہے زخمی سارا بدن،
گرتا ہے لہو اس کا ہر جا
ہئے ہئے زینب ہئے ہئے شام
ہر ایک طمانچے پر بچی،
دیتی ہی رہی عمو کو صدا
ہئے ہئے زینب ہئے ہئے شام
مارا ہے اتنا چہرے پر
زخمی ہے سکینہ کا چہرہ
ہئے ہئے زینب ہئے ہئے شام
مارے ہیں پتھر امت نے،
پانی بھی کھولتا ہے پھینکا
ہئے ہئے زینب ہئے ہئے شام
بے پردہ سارے اہلِ حرم
نیزے سے گرے سر غازی کا
ہئے ہئے زینب ہئے ہئے شام
صائب نے پوچھا شام کا جب
بیمار نے رو رو کر ہے کہا
ہئے ہئے زینب ہئے ہئے شام۔

0
30