| نگاہوں سے اشارہ کر |
| مسیحا بن تماشہ کر |
| اے میرے دل مری بھی سن |
| تو بھی کوئی ڈرامہ کر |
| تجھے جینا سکھا دیں گے |
| ہمارے پاس بیٹھا کر |
| وہ کیسی چال چلتا ہے |
| دلِ درویش دیکھا کر |
| تجھے اپنی مصیبت پر |
| مرے بارے بھی سوچا کر |
| بھروسہ توڑ دیتا ہوں |
| مگر پھر بھی بھروسہ کر |
| میں اپنے یار کا ہوں بس |
| تو جو کر سکتا ہے جا کر |
| توقع مار دیتی ہے |
| جو ہے اس پر گزارہ کر |
| میں یوسف بنتا ہوں خود میں |
| تو بھی خود کو زلیخا کر |
| جسے ہم سنگ کہتے ہیں |
| وہی ہیں شنکر و شاکر |
| سرِ محشر کروں گا کچھ |
| کہ یعنی عرش پر جا کر |
| اگرچہ خوبصورت ہوں |
| مگر اتنا نہ دیکھا کر |
| میں گھر سے پڑھ کے آیا ہوں |
| تو جا اور اپنا پرچہ کر |
| تمہارے خواب روتے ہیں |
| ہماری نیند میں آ کر |
| ہمیں برسات ملتی ہے |
| زمینیں خشک کروا کر |
معلومات