مزاج نرم رہا بد حواس ہو کر بھی |
وہ پرسکون تھا کتنا اداس ہو کر بھی |
تھے شر پسندی کے منصوبہ سارے ہی لیکن |
نگر پہ طاری رہا سکتہ یاس ہو کر بھی |
بے اعتنائی ہو پہنچی عروج کے درجہ |
نگاہیں پھیر لیں تب حق شناس ہو کر بھی |
غمِ فراق میں بے ساختہ زباں بولے |
گُزر کٹھن ہے بہت دل میں آس ہو کر بھی |
شعور جاگے اگر باشعور لوگوں میں |
رہیگا امن ہی خوف و ہراس ہو کر بھی |
ہے کم نصیبی کہ محروم علم سے ہوں ہم |
سبیل اور وسائل یہ پاس ہو کر بھی |
اصولوں کا اسے پابند ہی سمجھ ناصؔر |
خلوص برتے جو اندر بھڑاس ہو کر بھی |
معلومات