ترے ہی حکم کی تعمیل کی ہے
کہانی میں نے کچھ تبدیل کی ہے
خوشی جو راس آئی تھی نہ مجھ کو
وہی اشکوں میں اب تحلیل کی ہے
جسے تھےعشق نے بخشے مراتب
اسی نے عشق کی تذلیل کی ہے
ضروری ہو گیا تھا خود سے ملنا
تبھی تو کام سے تعطیل کی ہے
جسے تسخیر کرنے آگیا تو
وہی تو حد مری تحصیل کی ہے
سبھی ہیں جھوٹ کی چھتری میں عابد
سبھی نے سچ کی یوں تاویل کی ہے

52