| آدمی وہم بھی گمان بھی ہے |
| آدمی عزم کی چٹان بھی ہے |
| آدمی امن بھی ہے جنگ بھی ہے |
| آدمی موم بھی ہے سنگ بھی ہے |
| آدمی شاہ بھی ہے فقیر بھی ہے |
| سب سے اشرف بھی ہے حقیر بھی ہے |
| خامشی بھی ہے اور جمود بھی ہے |
| آدمی سر بھی ہے سرود بھی ہے |
| تجھ سے باغی ترے حضور بھی ہے |
| عاجزیت بھی ہے غرور بھی ہے |
| بد نمائی کا ایک داغ بھی ہے |
| روشنی کا مگر چراغ بھی ہے |
| یہ کبھی جوشِ انتقام بھی ہے |
| یہ کبھی تیغِ بے نیام بھی ہے |
| خشک پتہ ہے برگ و بار بھی ہے |
| یہ خزاں بھی ہے یہ بہار بھی ہے |
| آدمی فتنہ و فساد بھی ہے |
| آدمی جذبہِ جہاد بھی ہے |
| آدمی شب بھی ہے سحر بھی ہے |
| آدمی زیر بھی زبر بھی ہے |
| آدمی سوز بھی ہے ساز بھی ہے |
| آدمی درد بھی گداز بھی ہے |
| گل صفت بھی ہے گل سرشت بھی ہے |
| آدمی خار بھی ہے خشت بھی ہے |
| آدمی موت بھی حیات بھی ہے |
| صبحِ روشن سیاہ رات بھی ہے |
| دردِ دل بھی ہے دل کا چین بھی ہے |
| کربلا بھی ہے یہ حسین بھی ہے |
| نا خدا بھی خدا صفات بھی ہے |
| ناؤ بھی لات بھی منات بھی ہے |
| راستی بھی ہے گمرہی بھی ہے |
| کجروی بھی ہے آ گہی بھی ہے |
| موت بھی یہ ہے اور نمود بھی ہے |
| یہ عدم بھی ہے یہ وجود بھی ہے |
| یہ ہے آبِ حیات بھی سم بھی |
| یہ کڑی دھوپ بھی ہے رم جھم بھی |
| رازداں بھی ہے اور راز بھی ہے |
| سر بھی یہ خود ہے اور ساز بھی ہے |
| جلوہ فرماں بھی انتظار بھی ہے |
| بے قراری بھی ہے قرار بھی ہے |
| کامرانی میں بھی شکست میں بھی |
| دمدموں میں بھی اور شست میں بھی |
| آدمی ذات میں فرشتہ بھی |
| آدمی بھیڑیا درندہ بھی |
| آدمی حدِ آدمیت بھی |
| آدمی حدِ بربریت بھی |
| آدمی رات کا اندھیرا بھی |
| آدمی صبح کا سویرا بھی |
| آدمی خوف بھی ہے وحشت بھی |
| آدمی رحم بھی ہے شفقت بھی |
| یہ تو شبنم بھی ہے شرارہ بھی |
| یہ کبھی دھوپ بھی ہے سایہ بھی |
| یہ خزاؤں میں بھی بہار میں بھی |
| یہ گلوں میں بھی خار زار میں بھی |
| نا امیدی میں بھی امید میں بھی |
| یاسیت میں بھی اور نوید میں بھی |
| یہ ہے مرشد بھی اور مرتد بھی |
| عبد بھی اور عبد کی ضد بھی |
| راست بازوں کی راستی میں بھی |
| گمرہوں کی یہ گمرہی میں بھی |
| واقعی عذر بھی بہانہ بھی |
| اک حقیقت بھی ہے فسانہ بھی |
| جگمگاتا ہوا ستارہ ہے |
| تلملاتا ہوا شرارہ ہے |
| یہ کبھی ریگزار صحرا ہے |
| یہ کبھی موج موج دریا ہے |
| نفرتوں کے بیاں میں شامل ہے |
| پیار کی داستاں میں شامل ہے |
| یہ کبھی خود سروں میں شامل ہے |
| یہ کبھی بے بسوں میں شامل ہے |
| عشق کے ہر نصاب میں یہ ہے |
| حسن کی ہر کتاب میں یہ ہے |
| قہر بھی خود ثواب بھی خود ہے |
| رحم بھی خود عذاب بھی خود ہے |
| ایک تصویرِ عاجزیت ہے |
| ایک تفسیرِ حاکمیت ہے |
| یہ کبھی ڈاکٹر کا نشتر ہے |
| یہ کبھی ڈاک¶ں کا خنجر ہے |
| زندگانی کا اک حوالہ ہے |
| یہ کبھی زہر کا پیالہ ہے |
| ایک انسانیت کا مظہر ہے |
| ایک فرعونیت کا پیکر ہے |
| ظلمتوں کے نگر میں رہتا ہے |
| روشنیوں کے گھر میں رہتا ہے |
| یہ کبھی جلوتوں میں رہتا ہے |
| یہ کبھی خلوتوں میں رہتا ہے |
| آدمی ہی زمیں کی پستی بھی |
| آسمانوں کی ہر بلندی بھی |
| آدمی شعلہ آدمی شبنم |
| آدمی زخم آدمی مرہم |
| حاکمیت کے ہر تکبر میں |
| عاجزیت کے ہر تحیر میں |
| ظلمتوں سے عداوتوں میں ہے |
| روشنی سے بغاوتوں میں ہے |
| یہ کبھی ظلم کے نشاں پر ہے |
| یہ کبھی تیر خود کماں پر ہے |
| راکھ ہے یہ کبھی ہے چنگاری |
| یہ کبھی نور ہے کبھی ناری |
| یہ ہی جلاد ہے یہی انساں |
| یہ دروغہ بھی ہے یہی رضواں |
| آدمی جنگ کا ہے نقارہ |
| آدمی امن کا ہے گہوارہ |
| یہ ہے آبادیوں میں وحشت میں |
| یہ ہر اک خواب میں حقیقت میں |
| آسمانوں کی ہر بلندی میں |
| اس زمیں کی ہر ایک پستی میں |
| امن کا آشتی کا گہوارہ |
| یہ ہے جنگ و جدل کا نقارہ |
| ریگزاروں کی ہر کہانی میں |
| یہ ہے دریا¶ں کی روانی میں |
| خون بن کر رگوں میں رہتا ہے |
| دل کی سب دھڑکنوں میں رہتا ہے |
| اک فسانہ ہے ناتوانی کا |
| آدمی بلبلہ ہے پانی کا |
| دوسروں کے لئے اجالا ہے |
| روشنیوں کا اک حوالہ ہے |
| ریگزاروں کی اک کہانی بھی |
| اس میں دریا¶ں کی روانی بھی |
| پائی فطرت کی اس نے ہر مستی |
| زیست کی ہر بلندی و پستی |
| پیری و بچپن و جوانی کا |
| یہ ہے عنوان ہر کہانی کا |
| یہ کبھی کچھ ہے اور کبھی کچھ ہے |
| کچھ نہ ہو کر بھی یہ سبھی کچھ ہے |
معلومات