ظہورِ حق کو یہی انقلاب کافی ہے
 جنابِ بنتِ علیؑ کا خطاب کافی ہے
 وہی بتول س کے دشمن ہوئے زمانے میں
 کہا جنہوں نے نبی ص سے کتاب کافی ہے
کوئی بھی خرچہ نہیں آتا نیند آنے میں 
مجھے حضور ص سے ملنے کو خواب کافی ہے
مری شفا کے لیے اور کچھ نہیں لانا 
یہ نقش_ناد_ علی کا گلاب کافی ہے 
اسی سہارے بسر کر رہا ہوں اپنی حیات 
کہ منتظر ہوں مجھے اضطراب کافی ہے 
علی ع کا ذکر کیا میں نے عمر بھر ارشد 
بہشت جانے کو اتنا ثواب کافی ہے 
ارشد فرات

0
61