| تلاشِ صبح سہی رات ہو بھی سکتی ہے |
| عجب نہیں کہ ہمیں مات ہو بھی سکتی ہے |
| حقیقتیں نہ سہی خواب تو ہمارے ہیں |
| سو ان سے روز ملاقات ہو بھی سکتی ہے |
| یہ ابرِ درد ان آنکھوں کا چھٹ بھی سکتا ہے |
| گھرا رہے گا تو برسات ہو بھی سکتی ہے |
| سنبھل سنبھل کہ یونہی کھیل کھیل میں اک دن |
| شرارتوں کی شروعات ہو بھی سکتی ہے |
| لبوں تک آ نہ سکی پھر بھی آنکھوں آنکھوں میں |
| جو آپ چاہیں تو وہ بات ہو بھی سکتی ہے |
| یہ عمر جہدِ مسلسل میں کٹ گئی لیکن |
| اسیر گردشِ حالات ہو بھی سکتی ہے |
| جو بات میرے نصیبوں میں لکھ گئی کیسے |
| خلافِ عرض و سماوات ہو بھی سکتی ہے |
| شکستہ جام بجھی شمع کب تری قسمت |
| مگر بشکلِ مکافات ہو بھی سکتی ہے |
| برا گماں کا ہو کیوں آ گیا حبیب، ادھر |
| کسی کی چشمِ عنایات ہو بھی سکتی ہے |
معلومات