تلاشِ صبح سہی رات ہو بھی سکتی ہے
عجب نہیں کہ ہمیں مات ہو بھی سکتی ہے
حقیقتیں نہ سہی خواب تو ہمارے ہیں
سو ان سے روز ملاقات ہو بھی سکتی ہے
یہ ابرِ درد ان آنکھوں کا چھٹ بھی سکتا ہے
گھرا رہے گا تو برسات ہو بھی سکتی ہے
سنبھل سنبھل کہ یونہی کھیل کھیل میں اک دن
شرارتوں کی شروعات ہو بھی سکتی ہے
لبوں تک آ نہ سکی پھر بھی آنکھوں آنکھوں میں
جو آپ چاہیں تو وہ بات ہو بھی سکتی ہے
یہ عمر جہدِ مسلسل میں کٹ گئی لیکن
اسیر گردشِ حالات ہو بھی سکتی ہے
جو بات میرے نصیبوں میں لکھ گئی کیسے
خلافِ عرض و سماوات ہو بھی سکتی ہے
شکستہ جام بجھی شمع کب تری قسمت
مگر بشکلِ مکافات ہو بھی سکتی ہے
برا گماں کا ہو کیوں آ گیا حبیب، ادھر
کسی کی چشمِ عنایات ہو بھی سکتی ہے

0
53