گئے تھے کام کرنے اب سمندر پار رہتے ہیں |
وہاں بےکار تھے جو اب یہاں بیکار رہتے ہیں |
خدا جانے اثر ماحول کا ہے یا ہوا کا ہے |
جو دشمن تھے یہاں آپس میں کر کے پیار رہتے ہیں |
پھٹکنے بھی نہ دیتے تھے مجھے نزدیک جو اپنے |
انہی گلیوں میں آ کر وہ مری سرکار رہتے ہیں |
جنہیں بھاتے تھے ساون بدلیاں برسات کے موسم |
یہاں آ کر اسی موسم سے وہ بیزار رہتے ہیں |
جو ڈگری کے مطابق کام کرنے پر نہ تھے راضی |
وہ شوفر بن کے سڑ کوں پر سرِ بازار رہتے ہیں |
جوانی کاٹ دی ساری ہے دولت جمع گر کرتے |
ادھیڑ عمری میں لاحق ان کو اب آزار رہتے ہیں |
حکومت کی مدد پر ہی گزارا کرنے والے بھی |
بہت سے ڈگریوں والے پسِ پندار رہتے ہیں |
خبر ہوتی نہیں اکثر ہیں کیسے ان کے ہمسا ئے |
کہ ہیں وہ کون جو ان کے پسِ دیوار رہتے ہیں |
شکایت ہے بلا لیتے ہیں جو ماں باپ کو اپنے |
کہ بوڑھے والدین ان کے یہاں لا چار رہتے ہیں |
کہیں شکوہ یہ ہوتا ہے بہت خود سر ہوئے بچّے |
کہ بچپن سے یہاں بچّے تو خود مختار رہتے ہیں |
غنیمت ہے کسی کو کوئی کافر بھی نہیں کہتا |
یہاں چاروں طرف گرچہ سبھی کفّار رہتے ہیں |
انہیں طارق تسلّی ہے جو ہجرت کر کے آئے ہیں |
کہ سب انصار خدمت کو یہاں تیّار رہتے ہیں |
معلومات