کچھ نہ کچھ تو وہ کر گیا ہو گا
کوئی الزام دھر گیا ہو گا
عشق کرنا کوئی ضروری تھا
عشق میں اس کا سر گیا ہو گا
مار کر وہ نہیں گیا مجھ کو
جانے کیوں آج ڈر گیا ہو گا
میں سمیٹے رہا یہاں اس کو
جب گیا وہ بکھر گیا ہو گا
کہہ رہا تھا کہ روشنی کم ہے
اس سفر دیدۂ تر گیا ہو گا
وہ تو آگے نکل گیا شاہدؔ
وقت پیچھے ٹھہر گیا ہو گا

0
33